"میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں"


(۴ مارچ کو راولپنڈی دھمیال کیمپ میں قتل ہونے والے ۲۴ سالہ مزدور نوجوان وقاص کیانی کے نام)
میں بھی مسلمانوں کی بستی کا ایک مکین تھا۔ میرا بھی ہنستا بستا خاندان تھا،ایک نھنی پری تھی۔ ایک شام اپنی نھنی پری کے لئے دوھ د لینے بازار گیا، اور پھر ہمیشہ کے لئے واپس نہ آسکا۔
وہ دو نقاب پوش درندے تھے جو ایک بھلے مانس بندے آدمی کو نوچ رہے تھے۔ انسانی ہمدردی کے ناتے یہ منظر دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا۔ اس مجبور آدمی کو چھوڑانے کے لئے  کی کوشش کی تو ،ان میں سے ایک بدبخت نے میری چھاتی پہ گولی چلا دی، میرا خون کر دیا۔ میرے ہنستے بستے گھر کو ویران کر گیا۔ میری تو کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی ، میں تو محنت مشقت سے روزی کمانے پہ یقین رکھتا تھا۔  میں نے چوبیس سالہ زندگی میں محنت اور جفاکشی کے علاوہ اور کچھ بھی تو  نہیں سیکھا تھا۔ ۱۰ سال کی عمر میں جب میرے دوست کھیل کود  اور تعلیمی عیاشی میں مگن تھے تو میں نے سب کچھ چھوڑ کے والد صاحب کے ساتھ محنت مزدوری کرنے کی ٹھان لی تھی۔ کرتا بھی کیا معذور باپ کو انتھک محنت کرتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔
سال ؁ ۲۰۱۴   میں ہمارا  مکان اور زمین سب کچھ سیلاب کی نظر ہو گیا تھے۔ ہم غریب لوگ بہت مجبور ہوتے ہیں، دو وقت کی روٹی کی فکر میں زندگی گزر جاتی ہے۔ کب بچپن گزرا کب جوانی آئی اس سب سے ہی بے خبر ہوتے ہیں۔ میرے سامنے ایک اوربڑا امتحان تھا۔ اب دو وقت کی روٹی کے علاوہ گھر کی چھت کی بھی فکر کھائے جا رہی تھی۔ والدین کی بڑھتی پریشانی مجھ سے نہیں دیکھی جا رہی تھی۔
ہم چار بہن بھائی تھے۔ دو بہنیں مجھ سے چھوٹی تھی اور ایک بڑی۔ خدا بزرگ وبرتر نے ہمت دی باغ سے راولپنڈی آ کے آباد ہوئے۔ یہاں ایک چھوٹا سا کرائے کا مکان لیااور محنت مزدوری میں لگ گئے۔ محنت کر کے کھانا ہی ہمارا نصب العین تھا۔ کبھی جھوٹ ،فریب ،دھوکہ دہی جیسی حماقتیں کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ بڑی آپی کی شادی کروائی ، خود بھی شادی کی۔ قسمت مہربان ہوئی  ، نو ماہ قبل ایک ننھی شہزادی کی آمد کی وجہ سے غریب خانے کی رونقیں مزید بڑھ گئیں۔
پھر اچانک چار ماچ کی وہ خونی شام آئی ، جب نا معلوم افراد نے میرا قتل کیا۔
’میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے‘
 اے اس بستی کے مکینو! میری روح اس پریشانی سے تڑپ رہی ہے  کہ میرے بعد میرے کندھوں کا بوجھ کون اٹھائے گا۔ میری ننھی شہزادی کی پرورش اور تعلیم و تربیت کون کرے گا۔ میری بیوہ، میری چھوٹی بہنوں اور بوڑھے والدین کی داد رسی کون کرے گا۔  اے ریاست مدینہ کے حاکمو! میری روح تم سے تڑپ تڑپ کے التجاء کر رہی ہے۔ میرے بوڑھے والدین کا دکھ بانٹو، انہیں انصاف دلاوٗ۔ میرے خاندان کی کفالت کی زمہ داری اٹھاو۔ ورنہ روز قیامت  میدانِ حشر میں اللہ تعالی کے روح بروح ہماری ملاقات ہو گی۔  

Comments

  1. Allah pak janat e firdos may jaga Ata farmai Ameen aur walou ko sabar dai aur qatlou ko jald say jald saza di jahai. Aur gar walou ko insaf melay.

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

What is crona Virus and COVID-19? Its causes and prevention in Urdu.. کرونا وائرس کیا ہے؟ کیا اس کا علاج ممکن ہے؟ ا