What is crona Virus and COVID-19? Its causes and prevention in Urdu.. کرونا وائرس کیا ہے؟ کیا اس کا علاج ممکن ہے؟ ا



نہ ہوتی کوئی مجبوری تو ہر بندہ خدا ہوتا
) کرونا وائرس اور COVID-19)
ہم نے فضاء میں پرواز کرنے کا ہنر سیکھ لیا، ہم سمندر کی گہرائیوں میں فطرت کے پوشیدہ رازوں کا پردہ چاک کر چکےہیں۔ ہم چاند پہ اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ چکے، ہم ہزاروں کلومیٹر کا سفر چند گھنٹوں میں طے کر سکتے ہیں۔آج کی ڈیجیٹل ورلڈ میں ہم ہمہ وقت ساری دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے باخبر رہتے ہیں۔ ہم نے طب ، کیمیاء ،حیاتیات، ارضیات ،فلکیات اور حساب کی دنیا میں لازال ایجادات کیں۔ ہم نے اپنی زندگی کو بہت حد تک پُرآسائش اورآرام دہ بنا دیا ہے۔ آج کے دور کا عام آدمی جن سہولیات سے فیض یاب ہو رہا ہے ، آج سے ایک ڈیڑھ صدی قبل یہ سہولتیں اُس دور کے راجہ ،مہاراجہ اور بادشاہوں کو بھی میسر نہیں تھیں۔
ہم آج کے انسان ایک طرف تو اپنی لازوال ترقی پہ نازاں ہیں لیکن دوسری طرف بے شمار معملات میں قدرت کے سامنے بے بس اور بے کس نظر آتے ہیں ۔ طب کی دنیا میں انسان نے جہاں پہ بیش بہا ایجادات کیں وہیں بے شمار مسائل ایسے ہیں جن پہ کئی سالوں سے تحقیق جاری ہے، مگر تا حال انسانی عقل ان سوالوں کا جواب دینے سے قاصر ہے، جیسے کہ موت اور ، بڑھاپے کا علاج ۔تاریخ شاہد ہے کہ ایک بہت بڑی سلطنت کا بادشاہ ،لا محدود طاقت کا حامل، ایک حقیر سے مچھر کے سامنے بے بس و مجبور ہو گیا۔اور وہی مچھر اُس کے لئے ذلت ،رسوائی اور موت کا سبب بنا۔  ہم جتنے بھی با اختیار بننے کی کوشش کریں اللہ تعالی ٰ ایک معمولی رکاوٹ سے ہمیں ہماری اوقات یاد دلا دیتا ہے۔ بقولِ شاعر:۔

؎ یہ ناحق ہم مجبوروں پہ اک تہمت ہے مختاری کی
جو چاہتے ہیں ،سو آپ کریں اور ہم کو عبث بدنام کریں


کسی نے حضرت علیؓ سے سوال کیا یا حضرت! انسان دنیا میں کتنا با اختیار ہے؟ آپ نے فرمایا ؛ ایک پاؤں اٹھاؤ ۔ اُس شحص نے ایک پاؤں اٹھایا۔ آپ نے فرمایا ؛ اب دوسرا پاؤں بھی اٹھانے کی کوشش کرو۔ اُس شخص نے کہا حضرت یہ میرے بس میں نہیں۔ آپ نے فرمایا؛ انسان کی بس اتنی ہی اوقات ہے،انسان اتنا ہی اختیار رکھتا ہے۔ اگر انسان سو فیصد با اختیار ہوتا تو زمین پہ فتنہ و فساد پھیلاتا۔

؎ ضرورت توڑ دیتی ہے غرورِ بے نیازی کو
نہ ہوتی کوئی مجبوری تو ہر بندہ خدا ہوتا۔

  خدا تعالیٰ نے غرور و تکبر کو سخت نا پسند فرمایا؛ یہ غرور ہی تھا جس نے سب سے بڑے عابد و زاہد(ابلیس) کوشیطان اور یہ عاجزی و انکساری  ہی تھی جس نے آدمؑ کو زمین پہ اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہونے کی سعادت سے نوازا۔ عِجز و انکساری اللہ کے نیک اور برگزیدہ لوگوں کی صفت ہے، جس کی بدولت یہ لوگ دنیا و آخرت میں سرخروٹھہرے  ۔تاریخ  کےاوراق میں مغرور لوگوں  کاعبرتناک انجام تا قیامت محفوظ رہے گا۔

ہم لوگ ترقی یافتہ اور خودساختہ بااختیار ہونے کے باوجود ، گذشتہ چند دنوں سے ایک نھنے سے جاندار(کروناوائرس)کے سامنے لاچار و مجبور نظر آرہے ہیں۔   اس نھنی پُر اسرار مخلوق نے ساری دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ ابھی تک یہ جاندار کئی زندگیوں کے چراغ گُل کر چکا ہے ، کئی ممالک کا زمینی و فضائی رابطہ کٹ چکا ہے۔  آمدورفت نہ ہونے کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی حد تک کمی آچکی ہے۔ ساری دنیا کی معیشت دن بدن زوال کا شکار ہو رہی ہے۔
اس وائرس کوکرؤن یعنی تاج کی شکل سے مشابہت کی بنا پہ کرونا ء وائرس کا نام دیا گیا۔ یہ وائرس انفلوینزا وائرس کی فیملی سے تعلق رکھتا ہے ، جوریسپیرٹری سسٹم یعنی نظام تنفس   کو متاثر کرتا ہے۔ یہ ایک زوناٹک وائرس کی قسم ہے جوجانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ چین میں اُن علاقوں میں زیادہ کیس روپورٹ ہوئے ہیں جہاں چیل کو بطور خوراک استعمال کیا جاتا تھا۔ دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک میں ایک لاکھ سے زائد لوگ اس مرض کا شکار ہوئے ہیں چار ہزار کے لگ بھگ اموات واقع ہوئی ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں چین سرِ فہرست ہے۔  اس بیماری کی شرح اموات صرف ساڑھے نو فیصد ہے۔

یہ وائرس منہ اور ناک کے زریعے سانس کی نالی میں داخل ہوتا ہے اور کھانسی ،نزلہ زکام ، سانس لینے میں دشواری اور  نمونیہ جیسی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔، اس کے علاوہ سانس کی نالی میں داخل ہو کر وہاں سیلیٹد ایپی تھیلیم میں اپنے پاؤں جما لیتا ہے۔ جہاں سانس کی نالی کی توڑ پھوڑ کر کے خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ خون کی گردش کی وجہ سے یہ جسم کے باقی اعضاء تک رسائی حاصل کر لیتا ہے اور ان اعضاء کو متاثر کرتا ہے۔ جیسے کہ گردوں کا فیل ہونا، جگر اور دل کا فیل ہونا۔ نمونیہ کی نسبت زیادہ تر لوگوں کی اموات جسم کے اعضاء کے فیل ہونے کے باعث ہی ہوئی ہیں۔  عمر رسیدہ افراد، دل ،جگر اور گردوں کے مریض اس  سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

ابتدائی علامات میں نزلہ ، زکام، بخار،سر درد، کھانسی ، چکر آنا تھکاوٹ ہیں اور اگر وائرس نظامِ انہظام میں شامل ہو جائے تو قے اور پیچش کا بھی باعث بنتا ہے۔ پچیس فی صد مریضوں میں قے اور پیچش بھی دیکھنے کو ملی ہیں۔

یہ چونکہ ایک قسم کا وائرس ہے اس لئے کسی قسم کی اینٹی بائیوٹک ادویات اس پہ اثر نہیں کرتیں، اینٹی بائیوٹک ادویات صرف بیکٹریا سے پھیلنے والی امراض کے لئے کارگر ہوتی ہیں۔ اس مہلک بیماری سے بچنے کے لئے   اپنے جسم میں وائرس کے داخلے کو روکنے کے لئے چند احتیاطیں برتنا ہوگیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او )  کی تجویز کردہ احتیاطی تدابیر درج ذیل ہیں۔ ہاتھوں کو صابن یا الکولک سینیٹائیزر سے دھونا، ناک اور منہ کو فیس ماسک سے ڈھانپ کے رکھنا،ٓآنکھوں منہ اور ناک کو بار بار چھونے سے پرہیز کرنا۔ مشتبہ افراد سے دور رہنا، سفر کرنے سے ہر ممکنہ حد تک اجتناب کرنا، اجتماعات میں جانے سے پرہیز کرنا۔  یاد رہے اس بیماری کے لئے کوئی ویکسین اور اینٹی بائیوٹک  کار گر نہیں ہے ، اس لئے ڈاکٹر کے تجویز کردہ علاج کے علاوہ ہر طرح کے علاج سے پرہیز کریں۔

 تا حال اس مرض کا علاج دریافت نہیں ہوا۔  اکثر مریض خود بخود صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ زندگیاور موتاللہ کے ہاتھ میں ہے، خدا پر ایمان رکھنے والے لوگ موت سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔  پوری دنیا کے مائیکروبائیولوجسٹ دن رات کرونا وائرس سے لڑنے کے لئے ویکسین کی تیاری میں مگن ہیں۔ امید ہے کہ جلد مایوسی کے بادلوں سے امید کی روشن کرن نمودار ہوگی۔ اللہ رب العزت آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور آپ کو اور آپ کے اہل و عیال کو اس مہلک مرض سے محفوظ رکھے۔ آمین!

Comments

Popular posts from this blog

"میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں"