"فضاؤں کا بازی گر"





پرندوں کی دنیاکا درویش ہوںمیں
   کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ

میں حضرت علامہ اقبال ؒ کی مشق سخن  کا مرکزی کردار، پرندوں کی دنیاکابادشاہ و رہنما اور فضاوں کا بازی گر، زبان عام میں مجھےشاہین کہتے ہیں ۔   میں اپنی امتیازی جبلت کی بنا پر ، طاہر لاہوتی  آسمان  نیلگوں کا بے  تاج کا بادشاہ گردانہ جاتا ہوں۔  اقبال ؒ نے اپنی شاعری میں میری عزت و تکریم بڑےشاندار انداز میں اجاگر کی ہے۔ اللہ عزوجل نے مجھےزبردست قائدانہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اے ابن آدم! اپنی  زندگی میں ان خصوصیات کا اطلاق کروتم اُس دنیا پہ راج کرو گے ۔ مجھے اپنا معلم تسلیم کرلو میری زندگی میں تمھارے لئے انمول اسباق پنہاں ہیں۔ میں تمھارے لئے بے مول مدرس، ہمہ وقت تمہاری تدریس و رہنمائی کے لئے  میسر ہوں۔ 



یہ پورب،یہ پچھم چکوروں کی دنیا                                                                          
  میرا نیلگوں،آسماں بےکرانہ  

مشرق و مغرب یہ چکوروں کی دنیا ، یہ وسیع وعریض لامحدود آسمان میرا ہے۔  اے کرہ  ارض کے خلیفاؤ !تمھاری شناخت تمھارے سماجھی حصار سے ہے۔ اے روح زمین کے باسیو! اپنی رفاقت   اونچی مثبت سوچ رکھنے والے ، اونچی ذات کے ذات کے لوگوں سے رکھو۔ یہ نچلی ذات والے کمی کمینے دوست تمھیں تمھاری منزل سے  بھٹکا دیں گے۔ تم اپنی کتاب حیات کے  خود کاتب ہو۔ اس خالی اوراق کے مجموعے کو اپنے بچوں کے لئے اسوہ حسنہ کا ذخیرہ بناؤ۔  میرا ایک  واضح مقصد حیات ہوتا ہے۔ میں آسمان کی بلندیوں سے اپنے شکار کو پہچان لیتا ہوں ۔ اور اسے حاصل کرنے کے لئے سر ڈھڑ کی بازی لگا دیتا ہوں۔ کوئی بھی رکاوٹ میری پروازکو نہیں روک پاتی ، کیونکہ میں رکاوٹوں کی پرواہ کئے بغیر ، حصول مقصد کے لئے بھر پور جدو جہد کرتا ہوں۔ اے عقل و فہم رکھنے والے انسانو! زندگی میں درپیش آنے والی مشکلات کا رونا رونے والے لوگو!میری زندگی تمھارے لئے نشانِ عبرت ہے۔

ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جواں مرد کی ضربتِ غازیانہ 

ریگستان کی آندھی مرد ِمجاد کو میدانِ جنگ میں لڑنے کی ہمت و قوت فراہم کرتی ہے۔ تم لوگ اپنی حیات میں ذرہ بھر کامیابی سمیٹ کرپھولے نہیں سماتے ، کہ ہم نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے اور اسی غرور و خوش فہمی میں باقی کی زندگی بلا مقصد گزار دیتے ہو۔
مجھے دیکھو میں کبھی اپنے ماضی میں نہیں جھانکتا، میں کبھی گلا سڑا اور بدبودار شکار نہیں کھاتا۔ زندہ رہنے کے لئے ہمیشہ تازہ جانور کا شکار کرتا ہوں ، خوا ہ اْس کے حصول کے لئے مجھے کتنی ہی تگ و دو کیوں نہ کرنی پڑے۔

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

چیلوں کا اندازِ پرواز بھی تو میرے ہی جیسا ہے، لیکن  ہم دونوں میں ترجیحات ، رویوں اور سوچ کا فرق ہے ۔
 تم لوگ کاہل سْست اور آرام پسند ہو۔ تم لوگ زندگی میں چیلنجز کا سامنا نہیں کرتے۔ حلانکہ میرا مرغوب مشغلہ نا قابلِ تسخیر مہمات کو سر کرنا ہے۔آندھی اور طوفان کے اوقات میں میرے ساتھی اپنے آشیانوں میں دبک کے بیٹھ جاتے ہیں جبکہ مجھےان حالات سے پیار ہے۔ میں انہی اوقات میں حصول رزق کے لئے رختِ سفر باندھتا ہوں ۔

نہ بادِ بہاری ،گلچیں، نہ بلبل
 نہ بیماریِ نغمہَ عاشقاں

میرے دستورِ حیات میں ایک بیمارِ عشق (بلبل ) کی طرح فصل بہار کا جنوں اور گلِ گلاب کی محبت میں درد بھرے گیتوں کی تشکیل جیسے مشاغل شامل نہیں ہیں ۔
مہمات ،مہم جوؤں کے لئے خوف وہراس کا ماحول نہیں پیدا کرتیں،بلکہ مرد مجاہد ان مہمات کو نفع بخش مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
میں جب بھی اپنی نسل بڑھانے کی غرض سے اپنی مادہ دوست کا انتخاب کرتا ہوں تو پہلے اْس کی وفا اوراْسکی مخلصی کا امتحان لیتا ہوں۔ اس لئے اپنے کئے گے معاعدے پر کبھی پچھتاوا نہیں ہوا۔ تم لوگ بھی زندگی میں عہد و پیماں سے قبل ایک دوسرے کے کردار کی یقین دہانی کر لیا کرو، تا کہ بعد میں عمر بھر کا پچھتاوا نہ ہو۔بہت جلد، بغیر چھان بین کے، ایک دوسرے پہ اعتبار کر لینا، تمہارے آپس کی لڑائی جھگڑے ، فتنےفساداور عمر بھر کے پچھتاوے کا باعث بنتا ہے۔ 
دور اندیش اور با اثر لوگ   زندگی کے مصائب و آلام سے نمٹنے کے لئے ہر طرح کے اسباب کا پہلے سے بندوبست کر کے رکھتے ہیں ۔ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ہر طرح کے سانچے میں ڈالنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اپنی تعلیم و تربیت اپنی صلاحیتوں کو زمانے کے مطابق بہتر بناتے رہتے ہیں۔ کسی فرد کی پیشہ ورانہ زندگی میں مشق و تربیت کلیدی کردار ادا کرتےہیں۔ میری زندگی بھی انہی اصولوں پہ مبنی ہے۔ میں اپنے نھنے منْے لختِ جگر کے تمام پر نوچ لیتا ہوں، گونسلے سے نرم و نازک گاس کا بستر  اٹھا لیتا ہوں۔ تاکہ میرے  بچے تمھارے بچوں کی طرح  سُستی کاہلی اورآرام طلبی کے عادی نہ ہو جائیں۔بچپن کی یہ سخت اور جفاکش تربیت میرے شہزادوں کو عزت واحترام اور  خودی زندگی گزارنے کے قابل بناتی ہے۔

جھپٹنا،پلٹنا،پلٹ کر جھپٹنا
لہوگرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

اے اولادِ آدم آرام و آسائش  اور پَرسکون  زندگی بڑھوتری و ترقی سے عاری ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو مردِ میدان بنانا چاہتے ہو تو آرام و سکون ترک کر دو۔ تمیں اپنے بھائی اپنا  رہبر و رہنما  مانیں گے۔ تمہیں رہتی دنیا میں یاد رکھا جائے گا، تمھارے بچے تمھارے پیروکار ہوں گے،تمہیں اپنا پیر و مرشد تسلیم کریں گے۔ میں جب عمر رسیدہ ہو جاتا ہوں ، جب میرے پَر  میری پرواز میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں، مجھے حصولِ رزق میں تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، تو میں ان نا مساہد حالات کا رونا  نہیں روتا۔ نہ ہی اپنے پیٹ کا ایندھن پورا کرنے کی خاطر کسی کے رحم و کرم پہ انحصار کرتا ہوں، بلکہ اپنے پرانے پَر اپنی چونج سے نکال کر نئے پر آنے کا انتظار کرتا ہوں۔ میرے نئے پروں  کےساتھ میری کھوئی ہوئی پَرواز بھی لوٹ  آتی ہے۔

بیابانوں کی خلوت آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت میری راہبانہ“

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

What is crona Virus and COVID-19? Its causes and prevention in Urdu.. کرونا وائرس کیا ہے؟ کیا اس کا علاج ممکن ہے؟ ا

"میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں"